Wednesday, June 24, 2009

ڈاکٹر منیب احمد ساحل
یہ 1915ء کا سال تھا،یہودیوں کی تنظیم ورلڈ جیوش آرگنائزیشن کے قیام کو 17 سال کا عرصہ بیت چکا تھا ،یہودیوں کے سامنے دنیا میں اپنی سلطنت قائم کرنے کی راہ میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور وہ تھی سلطنت عثمانیہ ۔ورلڈ جیوش آرگنائزیشن کے منصوبہ سازوں نے اس وقت مسلم امہ کو لسانی و علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔یہودیوں نے ٹی ای لارنس آف عربیہ کو مسلم امہ کو لسانی ،قبائلی و علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کو بھیجا ،لارنس آئر لینڈ کے ایک نواب کا ناجائز بیٹا تھا اسے عربی و فارسی پر غیر معمولی عبور حاصل تھا وہ عربی لباس پہنتا تھا اور عربی بولتا تھا ،لارنس کی آنکھوں میں فتح مندی کی چمک پیدا ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کرنے کے شیطانی ارادے سے اس نے اپنا ناپاک قدم صحرائے عرب میں رکھا۔
عرب پہنچ کر اس نے سلطنت عثمانیہ کے تمام باغیوں سے ملاقات کی جس میں شریف مکہ سرفہرست تھا ،اس نے قبائلیوں میں قوم پرستی،عصبیت اور لسانیت کی آگ بھڑکائی ،مصر میں ان دنوں فوج کی کمان جنرل ایلن بی کے پاس تھی اس نے لارنس سے کہا ’’عربوں میں ترکوں کیخلاف بغاوت کی جو آگ تم نے بھڑکائی ہے اسے سرد نہیں ہونا چاہئے ۔ہم جلد ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات اور صلیبی جنگوں میں ہارنے کا اپنا بدلہ چکا لیں گے‘‘۔
جنرل ایلن نے لارنس کو یہ بھی یقین دلایا کہ اس کی مدد کیلئے اسلحہ اور سونا بھیجا جارہا ہے پھر اس نے لارنس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’یہ معرکہ تمہیں تاریخ میںحیات جاوداں عطا کر دیگا‘‘۔
لارنس نے عرب قبیلوں کو جنہیں وہ سلطنت عثمانیہ کیخلاف بھڑکا چکا تھا انہیں سلطنت عثمانیہ سے نجات دلانے کا بھرپور یقین دلایا اورانہیں ہر طرح سے مالی و مادی مدد فراہم کی ۔لارنس آف عربیا نے عرب قوم پرستی کی جو آگ جلائی تھی وہ عربستان کے بھڑکتی آگ کے صحراؤں میں خوب شعلے بھڑکاتی رہی یہاں تک کہ سعودی عرب کا قیام عمل میں آ گیا ،اس سے کئی برس قبل اٹلی ترکی کو شکست دیکر لیبیا پر قبضہ کر چکا تھا ادھر سلطان مہمت محمد کی حکومت مصطفی کمال اتا ترک کے ہاتھوں میں گئی سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا ،پھر مسلمانوں کی مرکزیت رہی اور نہ ہی امت مسلمہ کا کوئی تصور یہ سب تو قومیت کے سیلابوں میں بہہ گیا تھا اب صرف یہودیوں کی یلغار تھی ،پس یہودی اپنے مشن میں کامیاب رہے اور ’’اسرائیل ‘‘ کا ناجائز وجود قیام عمل میں آگیا۔
اسرائیل کے قیام سے ایک برس قبل ہی مسلمانوں کی ایک اسلامی نظریاتی ریاست ’’پاکستان ‘‘کا قیام وجود میں آچکا تھا دنیا بھر میں جتنے بھی مسلمان ممالک موجود تھے وہ علاقائی و لسانی بنیادوں پر وجود میں آئے تھے پاکستان سقوط خلافت کے بعد واحد مسلمان ملک تھا جوکہ اسلامی قومیت کے نظریے پر قائم ہوا تھا اس لئے یہود، نصاری و ہنود کی آنکھوں میں پاکستان کا وجود کھٹکنے لگا ،یہود و نصاری نے یہاں بھی وہی پالیسیاں اختیارکیں جو انہوں نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے استعمال کیں تھیں ،انہوں نے پاکستان کے غیرت ملی سے عاری سیاستدانوں کو خریدا اوران سے لسانی بنیادوں پر قوم پرستی کا نعرہ لگوایا ۔جس کے باعث 1971ء میں سقوط خلافت کے بعد کا عظیم المیہ ہوا اور دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی ریاست دولخت ہوگئی ،اس کے بعد جب پاکستان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا تو پھر یہود و ہنود کے زرخرید سیاستدانوں نے یہاں لسانیت کا کھیل کھیل کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہ رہے ہیں ۔یہ سیاستدان کہتے ہیں کہ وفاق نے ہمیں حقوق نہیں دیے ۔یہ نام نہاد قوم پرست اربوں روپے کی جائیداد رکھتے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک سیاستدان نے اپنے ذاتی پیسے سے کوئی فیکٹری قائم کی جس میں یہ ان لوگوں کو جنہیں لسانی بنیادوں پر اپنی قوم کہتے ہیں کو روزگار مہیا کر سکیں؟یہ سیاستدان تو یہودیوں سے پیسے لیکر غریب عوام اور اپنی ہی جماعت کے کارکنوں کو اپنے مفادات پر قربان کر دیتے ہیں اور جو سیاسی کارکن ان کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر مارے جاتے ہیں یہ پلٹ کر ان کے اہل خانہ کا حال تک نہیں پوچھتے ۔یہ صلیب و ہلال کی جنگ کو اپنی جنگ کہہ رہے ہیں،ان سیاستدانوں نے حیفا، خصاص،سعسع، ابوکبیر، طنطورہ،رملہ،جمرود،صابرہ،شطیلہ اور دیگر علاقوں میں بہنے والے مسلمان خاک نشینوں کے لہو کو بھلا دیا ہے ،کیا آج مسلمانوں کے پاس مرکزی خلافت ہوتی اور ایٹمی قوت بھی ہوتی تو کیا ارض مقدس سے لے کرعراق اور افغانستان تک یونہی مسلمانوں کا خون بہتا؟ اگر یورپ دو عالمی جنگیں لڑنے کے بعد،سو سالہ خونریزی کے بعد،کروڑوں انسانوں کا خون بہانے کے بعد ایک پارلیمنٹ اور کرنسی پر متحد ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے ؟کب تک ہم لسانی و علاقائی بنیادوں پر آپس میں لڑتے رہیں گے؟ کب تک غزہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں سے لے کر عراق اور افغانستان میں صلیبیوں کے ہاتھوں اور سرحد میں امریکی ڈرونز کے ہاتھوں بے غیرتی سے مسلمان خاک نشینوں کو مرتے دیکھتے رہیں گے؟
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے ہرکام میں نہایت اعتدال قائم رکھا ہے قبل از اسلام دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جارحانہ اصول ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کالے وگورے کا امتیاز رائج تھا جرائم کی سزا بھی شخصیات وخاندان کو دیکھ کر دی جاتی پھر جب خدا تعالی کی رحمت کاملہ اسلام کی صورت میں اہل عالم کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے ان گم گشتہ راہ انسانوں کو یہ باور کرایا کہ تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
خلقکم من نفس واحد (نساء:)
یعنی تمہیں ایک ہی ذات سے پیدا کیا۔
اسی کی تشریح کرتے ہوئے حضور ا نے حج الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
یایہا الناس! الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا! لافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لسود علی احمر ولا لحمر علی اسود الا بالتقوی۔(قرطبی ج: ص:)
ترجمہ:۔اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار! کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقوی کے۔
اسی اسلامی دو قومی نظریہ کی رو سے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ قومیت کی بنیاد صرف ایمان وکفر ہی ہوسکتی ہے رنگ ونسل زبان ووطن ایسی چیزیں ہیں ہی نہیں جو انسان کو مختلف گروہوں میں بانٹ سکیں
افسوس کہ اب پاکستانی بھی اس لعنت میں گرفتار ہو کر صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے ہیں اور مہاجر بنگالی سندھی بلوچی پنجابی سرائیکی اور پٹھان مختلف قوموں میں بٹ گئے ہیں حتی کہ یہ لسانی اور صوبائی عصبیت ان کی رگ وپئے میں اس قدر سرایت کرگئی کہ حکومتی مناصب وعہدے بھی اسی بنیاد پر دیئے جانے لگے اور آئے دن اسی بنیاد پر قتل وخون کا بازار گرم کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر دوسری قوموں کی عزتوں پر حملہ کیا جاتاہے اسی پر تحریکوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور ان تحریکوں کے سرخیل وہی انسان ہیں جو انصاف وحقوق اور اتحاد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور مظلوموں کے ہمدرد ووفادار ہونے کے علمبردار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں۔
ڈاکٹر منیب احمد ساحل
ہزاروں سال سے دانشور اور فلاسفر اچھی ریاست کے بارے میں اپنے نظریات پیش کر رہے ہیں اور ایک مثالی معاشرے کی اپنے اپنے انداز میں تعریف کر رہے ہیں ،چندقدیم فلسفیوں و دانشوروں کے نظریات بادشاہوں اور رعایا کے بارے میں ہوتے تھے اور وہ بادشاہوں کو حکمرانی طویل کرنے کے گر سکھاتے تھے،زیادہ تر عوام کو حقائق سے آگاہ رکھتے تھے ۔جبکہ نئے دور کے فلاسفر و دانشور جمہوریت کا پرچار کر رہے ہیں یا انہوں نے اس بارے میں نظریات پیش کئے کہ سیاستدان کس طرح اپنا اقتدار طویل کر سکتے ہیں۔
ریاست اور بادشاہت کے درمیان تعلق کے بارے میں چانکیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘میںلکھتا ہے کہ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے غریب عوام خوشحال ہوں کیونکہ جب عوام خوشحال ہو جاتی ہے تو وہ امور مملکت میں دخل اندازی کرنیکا سوچتے ہیں ،لہذاحکمرانوں کوچاہئے کہ وہ عوام کو روٹی کے چکر سے نہ نکلنے دیں ان پر اتنا بوجھ ڈالا جائے کہ عوام روٹی سے آگے کا نہ سوچیں جب تک عوام نان شبیبہ کے محتاج رہیں گے حکمران طبقے کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہو سکتے اور اگر کبھی کوئی گروہ حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو حکمران کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو آپس میں لڑوا دیں جب تک عوام آپس میں ایک دوسرے کیخلاف تعصب و بغض رکھیں گے حکمران کی حکمرانی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ۔ریاست اور حکومت سے متعلق طویل فلسفیانہ سلسلے میں افلاطون کے نظریات کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اپنی کتاب’’الجمہوریہ‘‘ میں افلاطون لکھتا ہے کہ بادشاہ ایک ایسا انسان ہونا چاہئے جو عدل و انصاف اور عقل و بصیرت کے ساتھ حکومت کرے اور اگر عادل و عاقل بادشاہ نہ ملے تو اخلاق اور علمی لحاظ سے بہتر لوگ حکومت کے امور چلائیں ،افلاطون کے فلسفے پر بحث کرتے ہوئے اس کا شاگرد ارسطولکھتا ہے کہ عوام کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ فطری اجتماعی فیصلے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا حکمران منتخب کریں جو کہ ان کے سامنے جوابدہ ہو وہ امور ریاست اور عوام کی زندگی کے باہمی تضادات کو سمجھے ،گڈ گورنس کا کا تعلق ہر دور کے مخصوص حالات سے ہوتا ہے اور کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے جو ہر زمانے کیلئے موزوں ہو ،ارسطو کے افکار سے متاثر ہو کر ’’روسو‘‘ نے اپنی مشہور تصنیف ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘میں ریاست کا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص حکومت کی سرگرمی میں حصہ لے تا کہ ریاست شہریوں کی تمام ضروریات پوری کر سکے ریاست ایسی ہونی چاہئے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور حکومت کے معاملات منتخب لوگوں کے ہاتھ میں ہوں جو عوام کی خواہشات کو مقدم رکھیں ،روسو سے اختلاف کرتے ہوئے فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب ’’خاندان،ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز میں لکھا کہ ریاست کا وجود ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی یہ ہمیشہ قائم رہیگی ،ریاست ایک ایسی قوت ہے جو سماج سے بالا تر ہو کر کھڑی ہے اور بتدریج اپنے آپ کو سماج سے بیگانہ کرتے ہوئے دور لے جاتی ہے ریاست ازل سے موجود نہیں تھی معاشی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے میں جب سماج ناگزیر طور پر طبقات میں تقسیم ہو گیا ریاست اس تقسیم کے باعث ضرورت بن گئی اب طبقہ اشرافیہ غریبوں کا استحصال کرنے کیلئے ریاستی مشینری کو استعمال کر تا ہے اور ریاست کے ہوتے ہوئے غریب عوام کو حقوق نہیں مل سکتے، جن فلسفیوں نے طاقت اور قیادت پر اپنے نظریات پیش کئے ان میں میکاولی کے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو عالمگیر شہرت ملی ،اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’دا پرنس ‘‘ میں میکاولی لکھتا ہے کہ حکمران ایک ایسا ’’شہزادہ ‘‘ ہے جو ہر معاملے میں اپنی مرضی مسلط کرے اس کے نزدیک مقصد کی اہمیت ہو نی چاہئے خواہ وہ کسی غاصب کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو اور مقصد کے حصول کیلئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا جاسکتا ہے ،سیاسی قوت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یا تو مقدر کا سکندر ہو یا پھر حکمران گھرانے میں پیدا ہوا ہو یا پھر مکر و فریب سے طاقت حاصل کرے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے ’’شہزادہ‘‘ایک منافق شخصیت کا مالک ہونا چاہئے جس نے چہرے پر رحم ،مذہب اور ایمان کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو تا کہ عوام میں اچھا تاثر پیدا ہو سکے لیکن اس کے تمام افعال اس کے اقوال کے برعکس ہونے چاہئیں ،مطلب کیلئے دل کھول کر جھوٹ بولے ضرورت پڑے تو دمکتے ہوئے روشن سورج کو چاند کا نام دے کر دن کو رات میں تبدیل کر دے ،جھوٹ کو اتنا پھیلائے کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے تو افراد ہی نہیں قومیں بھی اس کی صداقت پر ایمان لے آئیں گی ،آج اگر ہم وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے ’’شہزادے‘‘(سیاستدان ) چانکیہ اور میکاولی کے افکار پر عمل پیراہیں ہمارے سیاستدان غلطیاں کرتے ہیں اور انہیں مانتے بھی ہیں مگر ان کے افعال قول کے متضاد ہوتے ہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا اپنی غلطیوں کے بارے میں رویے کا اندازہ لگانے کاایک معتبر معیار ہے کہ پارٹی کتنی سنجیدہ ہے اور محنت کش عوام کیلئے اپنی ذمہ داری کو عملی طور پر کیسے پورا کرتی ہے ،غلطی کو اعلانیہ تسلیم کرنا اس کے اسباب معلوم کرنا اور صورتحال کو صیح کرنا کہ جس کا یہ نتیجہ ہو سنجیدہ سیاسی جماعت کی علامت ہے ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی غلطیوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ اپنی ہر غلطی کا بار گراں ہمیشہ دوسروں پر ہی ڈالتے رہے اور ان کی غلطیوں کی زد میں آکر پستے صرف مظلوم، لاچار ،بے بس اور نیم مردہ عوام ہی ہیں،حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی ہو یا کوئی مخلوط حکومت ہو ،اقتدار کے مراکز پر ہمیشہ یہی مراعات یافتہ استحصالی سیاستدانوں کا کلب مسلط رہا ہے قومی وسائل اور رزق کے سرچشموں پر ہر دور میں ان ہی کا غاصبانہ قبضہ رہا ،نوآبادیاتی سسٹم ملک میں ہونے کی وجہ سے انتہائی قابل اور ملک و قوم کا سچا درد رکھنے والے لوگ انتہائی مہنگے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔سیاستدانوں کی آپس میں لڑائی کی وجہ سے ملک میں فوجی حکومت بھی آجاتی ہے اور ابھی مارشلائی عتاب کے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ ملک میں ایک بار پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا ہے ،اس وقت ملک میں نام کی جمہوری حکومت تو قائم ہو گئی ہے لیکن تمام فیکٹر اور پالیسیاں جنرل (ر) پرویز مشرف کی ہی ہیں آج ملک کی جمہوری زرداریت دراصل پرویزیت کا تسلسل ہے عوما میں یہ تاثراجاگر ہوتا جارہا ہے کہ ‘‘ پی پی پی ‘‘ کی حکومت آنے کے باوجود ملک میں کچھ نہیں بدلا مہنگائی ،کساد بازاری، بیروزگاری، دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوا ہے پالیسیاں ،اقدامات اور اصلاحات عملی طور پر جمہوری حکومت کی بھی وہی ہیں جو پرویز مشرف حکومت کی تھیں ،پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی ہوس اقتدار اور ناعاقبت اندیشیوں نے آج ملک میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کر دی ہے۔
چانکیہ اور میکاولی کے افکار پر عمل پیرا ہمارے حکمران اپنے اقتدار کو ہمیشہ طول دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیںآج جو ملک میں بحران ہے اس کی اصل وجہ یہ ہی سیاستدان ہیں جو کہ چانکیہ اور میکاولی کے افکار پر عمل پیرا ہیں۔زندہ باد چانکیہ پائندہ باد میکاولی۔
ڈاکٹر منیب احمد ساحل
اب دعاؤں سے بھی نہیں کھلتا کوئی دروسعت افلاک میںمنتیں سب لوٹ آتی ہیں در ایجاب سےمنتیں،آہیں،مرادیں،زاریاںاب سنی نہیں جاتیںنسبتوں کو واسطوں کو اور وسیلوں کوپذیرائی نہیں ملتی سرعرش بریںآندھیوں کے شور میں دبکے بیٹھے ہوئے ہیں سبزلزلوں کا شور ہےبستیاں ایسی در کوثر سے دھتکارے ہوئے معلون بستے ہو جہاںحکمران قہر مسلسل کی طرح جن پر سزا کی صورت مسلط ہو چکےکیا خطا ایسی ہوئیقم باذن اللہ کہنے والے لب خاموش ہیںآستیں میں ید بیضا کے وارث گنگ ہیںمستحب ہاتھوں کی فریاد کی دستک سے در توبہ کھلتا نہیں
فقیہان وطن کو معلوم ہی نہیں کہ غربت نے آرزو کو مفلسی کی تاریک قبر میں اتار دیا ہے ،دراصل ہمارے رہنما چاند گاڑی کی خواہش رکھتے تھے چاند گاڑی نہ ملی تو بیل گاڑی میں بیٹھ گئے اور اپنی ہی سمت آگے بڑھنے لگے اور یوں وہ دائروں میں چلنے کے عادی ہو گئے ،یہ فقیہان شہر قوم کو ان کے مسائل سے نجات دلانا چاہتے ہیں ،ان میں سے کوئی روٹی کپڑہ اور مکان کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی آزاد عدلیہ کا،کوئی صوبائی خود مختاری مانگ رہا ہے تو کوئی اشتراکیت کا پرچارکررہا ہے۔
نام نہ لے یہاں علم رخودی و سپاہ گیری کاموزوں ہی نہیں مکتب کیلئے ایسے مقالاتکھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیلاب شاید نہ پڑے کسی کعبے کی بنیادخدا ہمیں ہر قسم کی قلت ،علت اور ذلت سے محفوظ رکھے کیونکہ ہم نے غور ،فکر و تدبر کا راستہ ترک کر دیا ہے ،22عرب ممالک سمیت 57اسلامی ممالک پر مشتمل امت مسلمہ کے2ارب سے زائد خاک نشین زبوں حالی کا شکار ہیں،آج امت مسلمہ کے نوجوانوں کو نہیں پتہ کہ ان کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟تمام مسلمان ممالک کے باشندے صرف کمانے کھانے شادی کرنے کی سوچ سے باہر ہی نہیں آ رہے ،ہم اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر تو کرتے ہیں لیکن آج کوئی محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جنم نہیں لے سکتا کیونکہ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم امہ کے رہنما عیش کوشی ،مصلحت پرستی کا شکار ہیں اور وہ مسلم امہ کے مسائل سے نہ صرف صرف نظر کررہے ہیں بلکہ انہیں اغیار کی سازشوں کا اندازہ ہی نہیں،یہ بات قابل افسوس ہے کہ دو ارب کی آبادی رکھنے والی مسلم امہ کے پاس کوئی ’’تھنک ٹینک‘‘ موجود نہیں جو کہ انہیں اغیار کی سازشوں سے آگا ہ کرے اسی لئے ایک لارنس آف عربیہ کھڑا ہوتا ہے اور وہ سلطنت عثمانیہ کے 22ٹکڑے کر دیتا ہے ،اور مسلم امہ کے فقیہان اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے،آج دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی،اخلاقی پستی کا سبب یہ ہے کہ مسلم امہ گروہی ،لسانی و نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے ،آج مسلم امہ میں کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت ایسی نہیں جو کہ ملت اسلامیہ کے مردہ جسد پر ضرب کلیمی لگانے کی صلاحیت رکھتی ہو،اور اسکی واحد وجہ امت مسلمہ کے زوال پر غور نہ کرنا ہے ،دنیا بھرمیں مسلم عسکری تنظیمیں اسلام کو بدنام کر رہی ہیں اور ان کے اس رویے کی وجہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہر مسلمان دہشتگرد نہیں لیکن ہر دہشتگرد مسلمان ہے ،اغیار ہمیں یہ طعنے صرف اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے مسلمان ان کے مقابلے میں کچھ نہیں کر سکتایہودیوں نے 250سال پہلے اپنے زوال پر غور کیا اور اس کے بعد ورلڈ جیوش آرگنائزیشن بنائی جس میں انہوں نے تھنک ٹینک بنایا ،باقاعدہ آپریشنل اور کاؤنٹر ونگ بنایا ،انہوں نے مسلمانوں پر ثقافتی،سماجی ،اور سیاسی یلغار کی اور مسلم امہ ان کی ریشہ دوانیوں کے جال میں آ کر تباہ و برباد ہو گئی ،یہ آج یہودیوں کی سازشوں کا ثمر ہی ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر مغرب کی نقالی کر رہے ہیں ،آج ہمارے بچوں کو انبیاء کے اتنے نام یاد نہیں ہونگے جتنے بالی وڈ ،ہالی وڈ کی اداکاراؤں کے ہونگے۔ آج بھی ہمارے مزدورں کے ہاتھ سرمایہ داروں کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں،ہمارے فکر و خیال آزاد نہیں،آج مسلمانوں کے بچے کھلونوں سے نہیں کھیلتے بلکہ تقدیر ان سے کھیلتی ہے یا پھر وہ اغیار کی سازشوں کا نشانہ بن جاتے ہیں،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ کے نوجوان اغیار کی سازشوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں اور وہ انفرادی طور پر ہی ان کیخلاف جہاد کریں ،ضروری نہیں کہ جہاد بندوق اٹھا کر ہی ہو ،یہودیوں کے ہتھکنڈوں کو ان ہی پر پلٹا جا سکتا ہے ،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف کاغذوں(ڈالروں) کے عوض مسلم امہ کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے ۔جہاد کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے نصاری یہود و ہنود کو سیاسی محاذ پر شکست دی جائے ،اور یہ ہر باشعور نوجوان کر سکتا ہے ،مثال کے طور پر یورپی یونین کی کرنسی ’’یورو‘‘ہے اور امریکہ کی ڈالر ،یورو کو ڈالر کے مقابلے پر لانے کیلئے ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی درآمدات،برآمدات ،جی ڈی پی معلوم کرنا ہے ،یورپی یونین چونکہ ممالک کا مجموعہ ہے اس لئے دنیا کے تمام ممالک کی برآمدات یورپی ممالک کو امریکا سے زیادہ ہیں،نوجوان حساب لگائیں کہ دنیا کے کون سے ملک کو ڈالر کے بجائے یورو میں تجارت کرنے کا فائدہ ہو گا اورانممالک کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی تجارت کو ڈالر سے یورو میں تبدیل کر دیں جس سے انہیں ہی فائدہ ہو گا یہ ترغیبات تمام ممالک کے سفارتخانوں،سرکاری دفاتر کو بذرعہ ای میل روانہ کر دیں ،اگر دنیا کے کچھ ممالک نے ہی اپنی کرنسی کو ڈالر سے یورو میں تبدیل کر لیا تو امریکا کے زوال کا وقت شروع ہو جائے گا۔(یہ ایک مثال ہے کہ مسلم امہ کے نوجوان اس طرح کے کام کر سکتے ہیں)یاد رکھیے ہمیں اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اڑانے کی ضرورت نہیں ،ہمیں کہیں خود کش حملہ کرنے کی ضرورت نہیں آج ایک عام آدمی انٹر نیٹ کو ہتھیار بنا کر ثقافتی یلغار کر سکتا ہے ،مسلم نوجوان فارغ ہو کر دوسروں کو پڑھائیں انہیں دین سے دوری کے بارے میں بتائیں ،نصاری یہود و ہنود کی سازشوں پر غور کریں اور اس کیخلاف لائحہ عمل طے کریں یاد رکھیے ایک نوجوان یہ سب اکیلا بھی کر سکتا ہے ،معاشرہ سدھارنے اور مسلم امہ کے مسائل حل کرنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں ازخود صیح ہونا پڑے گا کیونکہ معاشرہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے جب افراد اخلاقی گراوٹ کاشکار ہو جاتے ہیں تو معاشرہ خراب ہو جاتا ہے ،ہمیں ازخود قانون پر عمل کرنا ہو گا،جب بحیثیت فرد ہم صیح ہو جائیں گے تو معاشرہ خود ہی صیح ہو جائے گا۔ہمیں آگے بڑھنے کیلئے صرف علم و عمل کے میدان میں آگے جانے کی ضرورت ہے،آج کا انسان بے انتہا مسائل میں پھنسا ہوا ہے اگر روزانہ ہم صرف دو گھنٹے بھی امت مسلمہ کے مفاد کیلئے نکالیں تو انشااللہ وہ وقت ضرور آئے گا جب ہم آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہوں گے ،جدو جہد کریں’’ہمارے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں سوائے زنجیروں اور فتح کرنے کیلئے پوری دنیا ہے‘‘۔
خواہ کچھ بھی ہو آگے قدم بڑھانا ہے
مجھےنیند کیا آئے میلوں دور جانا ہے مجھے
ڈاکٹر منیب احمد ساحل
پاکستان سرکاری حکام اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گہرائی تک اثر وثوق حاصل کرنے کیلئے طالبان طبقاتی نظام کا استحصال کر رہے ہیں
عینینی فلسفہ میں دہشتگردی کی وضاحت کرتے ہوئے ہیگل نے کہا تھاکہ سب سے بڑی دہشتگردی معاشی و اقتصادی دہشتگردی ہوئی ہے اور سب سے بڑا قتل معاشی قتل ہوتا ہے۔ہمارے یہاں صرف دہشتگرد طالبا ن کو کہا جاتا ہے،ایک معاصر روزنامے میں چھپنے والی خبر کے مطابق پاکستان سرکاری حکام اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گہرائی تک اثر وثوق حاصل کرنے کیلئے طالبان طبقاتی نظام کا استحصال کر رہے ہیں اورامیر زمینداروں اور بے زمین ہاریوں میں پانی جانیوالی خلیج سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اسی حکمت عملی نے سوات میں طالبان کیلئے حکمرانی کی راہ ہموار کی ہے جہاں حکومت نے رواں ہفتے شرعی قوانین نافذ کئے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے 48 امیر زمینداروں کو علاقے سے بھگا کر ان کی زمینیں غریبوں میں تقسیم کی ہیں۔
ہر روز قوم کو ایک نیا زہر پینا پڑتا ہے ،لیکن اس قوم کی سسکیاں سننے والا کوئی نہیں ،کیونکہ ہم خود اسلامی تعلیمات کو خیر باد کہہ کر صلیبی جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی فلاح ڈھونڈتے ہیں
آج پاکستانیوں کا بد ترین معاشی استحصال ہو رہا ہے پوری قوم معاشی قتل عام کی زد میں ہے ،روز قوم پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ایک نئی معاشی ضرب پڑتی ہے اس قوم کا روز ایک عضو کاٹ لیا جاتا ہے، ہر روز قوم کو ایک نیا زہر پینا پڑتا ہے ،لیکن اس قوم کی سسکیاں سننے والا کوئی نہیں ،کیونکہ ہم خود اسلامی تعلیمات کو خیر باد کہہ کر صلیبی جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی فلاح ڈھونڈتے ہیں ۔ہم اپنا خلافتی جمہوری نظام بالائے طاق رکھ کر ابلیسی جمہوریت کی کیکر سے گلاب اگنے کی توقع کئے بیٹھے ہیں۔ جبکہ قران پاک نے واضح الفاظ میں تاکید کی ہے کہ جو قران سے منہ موڑے گا اس کی معیشت تنگ ہو جائیگی ،ہمارے یہاں ہر گھر میں قران ہونے کے باوجود بھی ہم اپنی قومی زندگی اور نظام حیات کے کسی ایک رنگ میں نہ ڈھال سکے ‘ مسلمان کہلائے مگر اسلام کو بے دخل کئے رکھا پاکستانی کہلوائے ‘ مگر پاکستانیت کو پاکستان سے باہر رکھا،پاکستان میں اسلام آباد تو ہے لیکن اسلام نہیں ،پاکستان میں قائد اعظم کا نظریہ اور اسلام کے قرانی نظام حیات کی کبھی کارفرمائی نہیں رہی بلکہ عوام دشمن نظریہ شکن سودی استحصالی اور جاگیردارانہ نظام ہی قائم رہا ،چند خاندانوں کا استحصالی گروہ ہمیشہ پاکستان کے وسائل اور رزق کے چشموں پر قابض رہا ،جاگیردار ،سرمایہ دار ، و استحصالی جمہوریت کے پیروکار پاکستانیوں کا استحصال در استحصال کرتے چلے آرہے ہیں ۔
مملکت پاکستان کے سب سے اعلی منصب پر فائز پاکستان کا کرپٹ اعظم مسٹر 10%این آر او یافتہ زرداری ہو یا آمریت کی باقیات اور دو مرتبہ وزارت عظمی کے منصب پر جلوہ افرروز رہنے والے میاں نوازشریف ہوں یا اسلامی نظام کے نفاذ کے نام نہاد علمبرادار ،دھرنائی سیاست کا پرچار کرنیوالے قاضی حسین احمد یا درباری اقتداری مولوی مولانا فضل الرحمان یا مظلوموں کے خود ساختہ ٹھیکیدار الطاف حسین یا گاندھیوں اور کانگریسیوں کی باقیات سرخ پوش اسفند یارولی ان کی تمام سیاسی و مذہبی سرگرمیوں کا واحد مرکز اقتدار و اختیار کا حصول اور دوسروںکی حکمرانی ختم کرکے اپنی حکمرانی قائم کرنا ہے
یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں خوش نما اشتہارات دکھا کر عوام اور پاکستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ،مملکت پاکستان کے سب سے اعلی منصب پر فائز پاکستان کا کرپٹ اعظم مسٹر 10%این آر او یافتہ زرداری ہو یا آمریت کی باقیات اور دو مرتبہ وزارت عظمی کے منصب پر جلوہ افرروز رہنے والے میاں نوازشریف ہوں یا اسلامی نظام کے نفاذ کے نام نہاد علمبرادار ،دھرنائی سیاست کا پرچار کرنیوالے قاضی حسین احمد یا درباری اقتداری مولوی مولانا فضل الرحمان یا مظلوموں کے خود ساختہ ٹھیکیدار الطاف حسین یا گاندھیوں اور کانگریسیوں کی باقیات سرخ پوش اسفند یارولی ان کی تمام سیاسی و مذہبی سرگرمیوں کا واحد مرکز اقتدار و اختیار کا حصول اور دوسروںکی حکمرانی ختم کرکے اپنی حکمرانی قائم کرنا ہے اپنوں کو لوٹ کر اپنے فارن بینک اکاؤنٹ بھرنا ہے۔ اپنے نجی اثاثوں اور دولت کے انبار میں اضافہ کرنا ہے ،ان خود ساختہ لیڈروں ،قائدوں اور رہبروں کے پاس اخباری بیانات بلند و بالا کاغذی دعوؤں اور انتخابی وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آج پاکستان میں انسانی جان سستی اور آٹا مہنگا ہے ۔پاکستانیوں کو آٹے، بجلی ،چینی اور روزگار سے محروم کر کے ان سیاستدانوں نے جو جرم کیا ہے ان ناقابل معافی قومی جرائم کی پاداش میں یہ سب پھانسی پر لٹکا دینے کے لائق ہیں
آج پاکستان میں انسانی جان سستی اور آٹا مہنگا ہے ۔پاکستانیوں کو آٹے، بجلی ،چینی اور روزگار سے محروم کر کے ان سیاستدانوں نے جو جرم کیا ہے ان ناقابل معافی قومی جرائم کی پاداش میں یہ سب پھانسی پر لٹکا دینے کے لائق ہیں،یہ لیڈر کہلاتے ہیں پاکستان کے اور ڈکٹیشن امریکا سے لیتے ہیں،یہ کھاتے پاکستان کا ہیں اور گاتے برطانیہ و بھارت کا ،یہ پڑوس میں روس چھوڑ کر امریکاپہنچ جاتے ہیں ،یہ فیلڈ مارشل بن کر امریکہ کو فوجی اڈے اور بھارت کو پاکستان کے دریا بیچ دیتے ہیں ، یہ انکل سام کے سفارشی خط لے کر آتے ہیں کہ حامل رقعہ ہذہ کو وزیر اعظم پاکستان تعینات کیا جائے۔یہاں ایجنٹ ہونے کو غداری گردانا جاتا ہے اور امریکی ایجنٹ ہونے کو باعث فخر۔ یہ ایک فون کال پر ’’ یو می اور ہم‘‘ کا اعلان کر کے کارگل کی جیتی ہوئی جنگ ہار دیتے ہیں، یہ لوڈ شیڈنگ ،پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے،مہنگائی ،بیروزگاری اور عوامی مسائل پر باہر نکلنے کے بجائے قوم کو لاحاصل ایشوز میں پھنسا کر رکھتے ہیں یہ راہبران قوم نہیں راہزن ہیں اور جب راہبر ہی راہزن بن جائے اور قوم کو کوئی گلے سڑے فاسدانہ نظام سے نجات نہ دلائے تو ایسی صورتحال میں اگر ایک گروہ نکلے جو کہ نفاذ شریعت کا دعویدار ہو تو کیا وہ دہشتگرد ہوتا ہے؟ہاں وہ دہشتگرد ہوتا ہے کیونکہ ہر انقلابی کو دہشتگرد ہی کہا جاتا ہے ،وہ وہ بغاوت جو ناکام ہو جائے وہ دہشتگردی ہوتی ہے ،ظاہر ہے قوم کو ہر روز اشیائے خوردونوش کی قیمتں بڑھا کر مہنگائی کے کند آلے سے ذبح کرنیوالوں کو ہر وہ شخص جو ان کیخلاف آواز اٹھائے گا دہشتگرد ہی دکھے گا ،کیونکہ اگر قوم کو علم مل گیا انہیں شعور آگیا تو قوم خود ہی ان راہزنوں کو ٹھکانے لگا دے گی ۔
آج ملک کا ہر تیسرا نوجوان بے روزگاری کے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے ،ارباب سیاست اور ابن الوقت حکمرانوں نے قوم کی نس نس میں فاقوں،غربت اور مہنگائی کا زہر بھر دیا ہے ،تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرنوجوانوں کی مجرمانہ سرگرمیاں اور تلاش معاش میں بھٹکتی ہوئی سینکڑوں مجبور و بے کس پاکستانی لڑکیوں کی عصمت فروشی کے شرمناک واقعات اور معاشی تنگدستیوں کے باعث ہزاروں لوگوں کی خود سوزیوں اور خودکشیوں نے اس نام نہاد اسلامی جمہوری ایٹمی پاکستان کے سماجی کھوکھلا پن کو بے نقاب کر دیا ہے عوام اب نظام بدلنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونے والے ہر شخص کے ساتھ ہیں چاہے وہ طالبان ہی کیوں نہ ہوں۔
لوگوں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب کابل کے بازار میں سڑک کے کنارے بیٹھا منی چینجر دکان بند کرنے جاتا تھا تو وہ پیسوں پر رومال ڈال کر چلا جاتا تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ میرے پیسے کوئی چوری نہیں کرسکے گا ،اسے قانون پر یقین تھا کیا آج اسلام آباد میں کوئی دکاندار 10منٹ اپنی دکان کھلی چھوڑ کر باہر جاسکتا ہے؟۔اگر سیاست کا مقصد قوم کی خدمت کرنا ہے تو اس سے بہتر ملک و قوم کی کیا خدمت ہو گی کہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنی پوری توانائیاں اور ذرائع وسائل کے ساتھ بے روزگاری اور مہنگائی کیخلاف مہم چلائیں،معاشرے سے بھوک اور افلاس ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں عوام کو مرنے اور خود کشی کرنے سے بچائیں ،آج ملک کا ہر تیسرا نوجوان بے روزگاری کے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے ،ارباب سیاست اور ابن الوقت حکمرانوں نے قوم کی نس نس میں فاقوں،غربت اور مہنگائی کا زہر بھر دیا ہے ،تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرنوجوانوں کی مجرمانہ سرگرمیاں اور تلاش معاش میں بھٹکتی ہوئی سینکڑوں مجبور و بے کس پاکستانی لڑکیوں کی عصمت فروشی کے شرمناک واقعات اور معاشی تنگدستیوں کے باعث ہزاروں لوگوں کی خود سوزیوں اور خودکشیوں نے اس نام نہاد اسلامی جمہوری ایٹمی پاکستان کے سماجی کھوکھلا پن کو بے نقاب کر دیا ہے عوام اب نظام بدلنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونے والے ہر شخص کے ساتھ ہیں چاہے وہ طالبان ہی کیوں نہ ہوں۔

No comments:

Post a Comment